Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر17

وہ سب اس وقت ڈنر کر رہے تھے درید واپس نہیں آیا تھا مراد صاحب نے اسے فون کیا تھا تو آگے سے اس نے مراد صاحب سے کہا تھا کہ وہ آفس کے کسی کام سے جا رہا ہے لیٹ آئے گا۔۔۔۔ افرحہ جو کہ شایان کے سامنے بیٹھی تھی شایان کی نظروں سے کنفیوز ہو رہی تھی کیونکہ شایان کھا کم رہا تھا اور اس کو معنی خیز نظروں سے گھور زیادہ رہا تھا ۔۔۔ اور وہ نروس ہوتی کھا بھی نہیں پا رہی تھی ۔۔۔ وہ اس کی طرف دیکھتی تو کبھی وہ آنکھ مار دیتا اور کبھی ٹیبل کے نیچے سے ٹانگ مارتا اور وہ اسے گھور کر رہ جاتی۔۔۔۔ کوئی بھی اُن کی طرف متوجہ نہیں تھا سب کھانا کھانے میں مصروف تھے آخر کار شایان کو اس پہ ترس آ ہی گیا اور وہ اسے کھانا کھانے کا اشارہ کرتے خود اپنی پلیٹ پر جھک گیا۔۔۔۔ ساوی اپنی پلیٹ پہ جھکی بس چمچ ہلا رہی تھی سوچوں کے سارے دھاگے درید سے جڑے تھے وہ نہیں جانتی تھی کہ درید مراد صاحب کو بتا چکا ہے ۔۔۔۔ اس کی ستم گری کے باوجود دل اس کے لیے پریشان تھا۔۔۔۔۔ بے دلی سے تھوڑا سا کھانا کھاتی وہ اٹھ گئی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔


رات اپنے پر پھیلا چکی تھی جس کی اگلی صبح جانے کیا رنگ دکھانے والی تھی۔۔۔۔۔۔افرحہ اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑی باہر جھانک رہی تھی جب کوئی آہستہ سے چلتا ہوا اس کے گرد ہاتھ باندھتا اپنے حصار میں لے گیا۔۔۔۔۔ شان۔۔۔۔۔اس نے سرگوشی میں پکارا۔ جی شان کی جان۔۔۔۔۔ اس نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔۔۔ چاند کتنا خوبصورت ہے نا؟ وہ آسمان پہ نظر آتے چاند کو دیکھتی بولی۔۔۔ ہاں بہت خوبصورت ہے مگر وہ والا تارہ زیادہ خوبصورت ہے جانتی ہو کیوں؟؟؟ وہ ایک چمکتے ستارے کی طرف اشارہ کرتا بول رہا تھا۔۔ کیوں؟؟؟ اس نے بے ساختہ پوچھا کیونکہ وہ تم ہو ۔۔۔۔۔۔ اس نے ہنوز اُس تارے پہ نظریں گاڑے کہا۔۔۔ لوگ اپنی محبت اور ہونے والی بیوی کوچاند سے تشبیہہ دیتے ہیں اور آپ ایک تارے سے دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ اس کی انوکھی بات سنتی اُس سے بولی۔۔۔۔۔ ہاں کیونکہ چاند ایک ہی ہوتا ہے جس پہ سب کی نظر ہوتی ہے ہر کوئی اُسے پانے کی کوشش کرتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تمہیں ہر کوئی دیکھے۔۔۔۔۔ ہر کوئی تمہاری خواہش کرے ۔۔۔تم میرا تارہ ہو جو صرف میرا ہے کوئی تمہیں پانے کی خواہش نہیں کرے گا آسمان پہ اور بھی تارے ہیں نا۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے کان میں سرگوشی کی مانند بولتا اُس پہ اپنا سحر چھوڑ رہا تھااور وہ دم سادھے سُن رہی تھی۔۔۔۔ آپ کبھی مجھے چھوڑیں گے تو نہیں نا جس طرح ماما بابا چھوڑ گئے ؟؟؟ وہ اس کی طرف رُخ کرتی نم لہجے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ کبھی نہیں چھوڑوں گا ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔۔۔۔لیکن موت تو برحق ہے ایک دن سب کو ہی جانا پڑتا ہے۔۔۔۔۔ وہ دھیرے سے اُسے سمجھا رہا تھا۔۔۔ آپ موت کی باتیں مت کریں مجھے ڈر لگتا ہے ۔۔۔۔ وہ روتے ہوئے اس کے کندھے پہ سر رکھتی بولی۔۔۔ اچھا سوری نہیں کر رہا ایسی کوئی بات تم رو تو مت۔۔۔ وہ اس کا سر سہلانے لگا۔۔۔ ہمم ۔۔۔۔ وہ آگے سے اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی اپنے بالوں میں چلتے شایان کے نرم لمس سے وہ غنودگی میں جانے لگی۔۔۔۔۔ دس منٹ بعد شایان کو سینے پہ افرحہ کی گرم سانسوں کا احساس ہوا تو اُس نے نرمی سے اُسے خود سے الگ کر کے اُس کا چہرہ دیکھا اور مسکرا دیا۔۔۔ وہ کھڑی کھڑی ہی سو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ اُسے احتیاط سے اُٹھاتا اُس کے بیڈ پر لایا اور دھیرے سے لٹا دیا پھر اُس پہ کمفرٹر درست کیا اور اس کی پیشانی چومتا لائٹ آف کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ اس وقت ہاتھ میں فون پکڑے بیڈ کراون سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔۔۔ اس نے کافی دفعہ درید کا نمبر ٹرائی کیا مگر فون آف جا رہا تھا۔۔ جھنجھلا کے اُس نے فون بیڈ پر پٹخا اور چت لیٹ گئی ابھی پانچ منٹ ہی گُزرے تھے کہ اُس کا فون بج اُٹھا۔۔۔ ہیلو درید کہاں ہیں آپ؟؟ گھر کیوں نہیں آئے؟؟؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟؟؟ وہ درید کی کال دیکھتی ایک ہی سانس میں سارے سوال پوچھا گئی تو آگے سے کرب میں ڈوبی ہنسی سنائی دی۔۔۔۔ تمہیں ککک کیا فرق پڑتا ہے مم میں کہاں ہوں۔۔۔ککک کیسا ہوں۔۔۔۔ تم اپنی خخخ خوشیوں میں مگن رر رہو اور بھول جج جاؤ کوئی دد درید بھی تھا۔۔۔ کرو شش شادی کرو اور خخ خوشیاں مناو ۔۔۔۔ درید جج جائے بب بھاڑ میں۔۔۔۔۔ مقابل کی کانپتی لڑکھڑاتی آواز آئی جیسے وہ بہت مشکل میں بول رہا ہو۔۔۔ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کہاں ہیں اِس وقت اور آپ ایسے اٹک اٹک کر کیوں بول رہے ہیں ؟؟ وہ پریشان ہوتی اُس سے پوچھنے لگی۔۔۔۔ مم میں وہاں ہوں جج جہاں سکون ہی سس سکون ہے اب کبھی واپس نہیں آوں گا کک کبھی نہیں۔۔۔۔ وہ اب بھی ویسے ہی بول رہا تھا۔ درید میری بات سُنیں۔۔۔ درید درید ہیلو ہیلو ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی بات مکمکل کرتی اس سے پہلے ہی وہ فون کاٹ گیا۔۔۔ اس نے آفس کا فون نمبر ڈائل کیا مگر اتنی رات کو آفس میں کس نے ہونا تھا وہ بھاگتی ہوئی درید کے روم میں پہنچی۔ اور سارے دراز چیک کرنے لگی دس منٹ بعد اُسے اپنی مطلوبہ کاٹیکٹ ڈائری مل چکی تھی جو کہ درید ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا۔۔۔۔ اُس نے جلدی سے درید کے سیکرٹری کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔ چار پانچ بیلز کے بعد فون اٹھا لیا گیا اور سیکرٹری کی نیند میں گم آواز سنائی دی۔۔۔ ہیلو کیا آپ درید فریاد احمد کے سیکرٹری بات کر رہے ہیں؟؟؟ اُس نے جلدی سے سوال کیا جی مگر آپ کون ؟؟؟ مقابل کی حیرت زدہ سی آواز سنائی دی۔۔۔ مم میں اُن کی کزن بات کر رہی ہوں اساورہ ۔۔۔ وہ ابھی تک آفس سے نہیں آئے آپ بتا سکتے ہیں کیا وہ آفس میں ہیں یا کہیں اور؟؟؟؟ اُس نے بے چینی سے اپنا تعارف کراتے اگلا سوال کیا۔۔۔ جی میم وہ آفس کے بعد اپنے نیو فلیٹ جاتے ہیں وہاں کا کام دیکھنے ۔۔۔۔ آفس سے تو چلے گئے تھے شاید آج بھی وہیں گئے ہوں۔۔۔۔ سیکرٹری نے اندازہ لگایا نیو فلیٹ؟؟؟؟ وہ الجھی۔۔ جی میم سر نے ایک نیو فلیٹ لیا ہے اس کی رینویشن کا کام چل رہا تھا تو شاید آج وہیں گئے ہوں۔۔۔۔ مقابل نے تفصیل سے بتایا۔۔۔ آپ مجھے فلیٹ کا اڈریس سینڈ کریں ۔۔۔۔۔ اُس نے ہدایت دی۔۔۔ جی اوکے میم میں ٹیکسٹ کر دیتا ہوں۔۔۔۔ کہتے ہی مقابل فون کاٹ گیا۔۔۔ پانچ منٹ کے انتظار کے بعد اُسے ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس میں درید کے فلیٹ کا اڈریس تھا ۔۔۔۔ وہ جلدی سے چادر اوڑھ کر باہر آئی اور لاونج سے کار کی چابیاں اُٹھاتی احتیاط سے گھر سے باہر نکل گئی بغیر کسی کو بتائے ۔۔۔ آج کی رات اُس کے حصے میں خسارے آنے والے والے تھے اگر یہ بات وہ جان جاتی تو کبھی بھی گھر سے باہر قدم نہ نکالتی۔۔۔۔۔۔۔۔


بوا ابھی بیگم صاحبہ کو کھانا کھلا کے آئیں تھیں ۔۔۔ ان کی دوائی ان کے کھانے پینے کا سارا کام بوا کے ذمہ ہی تھا۔۔۔ کبھی کبھی بوا کو بہت افسوس ہوتا اس گھر کے مکینوں پر اور کبھی کبھی دکھ ہوتا کہ جو اس گھر کے مکینوں کے ساتھ ہوا وہ نہ ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا اور پھر وہ یہ سوچ کر ہی چپ رہ جاتیں کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے شاید یہ سب کُچھ اسی طرح ہونا لکھا تھا۔۔۔ ابھی بھی وہ یہی سب سوچ رہیں تھیں کہ فون کی گھنٹی نے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔ وہ گُھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی کھڑی ہوئیں اور چلتی ہوئیں لینڈلائن تک آئیں تب تک فون بند ہو چکا تھا۔۔ وہ واپس پلٹنے لگیں کہ فون پھر سے بج اُٹھا انہوں نے فون اٹھا کے سلام کیا مگر آگے سے کوئی جواب نہ آیا۔۔۔۔ بیٹا کون بات کر رہے ہیں ؟؟؟ آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟؟؟ بوا نے دوبارہ پوچھا تو پھر سے کوئی جواب نہ آیا ۔ بوا فون رکھنے لگیں کہ انہیں کسی کی سسکیاں سنائی دیں۔۔۔ وہ سسکیوں کی آواز سن کے حیران رہ گئیں۔۔۔۔ بیٹا آپ کون بات کر رہے ہیں جب تک آپ بتائیں گے نہیں مجھے کیسے پتہ چلے گا؟؟؟ بوا الجھن سے بولیں۔۔۔ بب بوا مم میں نن نور آپ آپ کک کی۔۔۔۔۔۔۔ مقابل کی اٹکتی ہوئی آواز اور بات سن کے بوا کو جھٹکا لگا اور وہ ایک دم سے اُس کی بات کاٹ گئیں۔۔۔۔ نور بیٹا آپ کہاں ہیں ؟؟ آپ کو پتہ ہے سب کتنا پریشان ہیں بیگم صاحبہ بھی اب ٹھیک نہیں رہتیں سب آپ کو بہت یاد کرتے ہیں بیٹا آپ بتاو آپ کہاں ہو؟؟؟ بوا ایک ہی سانس میں بول گئیں۔۔۔ مم میں ٹھیک ہوں بوا ۔۔۔ گھر میں سب کیسے ہیں اور ماما کو کیا ہوا ہے ؟؟؟ بابا کیسے ہیں ؟؟ مجھے یاد کرتے ہیں نہ؟؟؟ وہ اہنی خیریت بتاتی گھر میں سب کی خیریت پوچھنے لگی۔۔۔ نہیں بیٹا جب سے آپ گئی ہو تب سے کُچھ بھی ٹھیک نہیں ہے اور بیگم صاحبہ آپ کو یاد کر کے روتی رہتی ہیں اور بڑے صاحب ۔۔۔۔۔ بوا ایکدم کہتی کہتی چپ ہوگئیں۔۔۔ کیا ہوا بابا کو وہ ٹھیک تو ہیں بتائیں مجھے پلیز مجھ سے کُچھ مت چھپائیے گا۔۔۔۔۔ وہ تڑپتی اُن سے التجا کر گئی۔۔۔۔ بڑے صاحب اِس دنیا میں نہیں رہے بیٹا جس دن انہیں آپ کی بے گُناہی کا پتہ چلا اُسی دن وہ سب کو چھوڑ کر چلے گئیے۔۔۔۔ بوا اتنا کہہ کر چپ ہو گئیں۔۔۔ جبکہ ان سے میلوں دور اسی شہر کے ایک ہسپتال کے کوریڈور میں کھڑی نور اپنے آپ کو سنبھال نہ پائی اور بے ہوش ہو کے نیچے گرنے لگی کہ اُس کے ساتھ کھڑی خاتون چیختے اُسے جلدی سے تھام گئی اور پھر اُسے آئی سی یو میں لے جایا گیا۔۔۔۔ فون کے پار چیخ و پکار کی آواز سن کر بوا ایک دم گھبرا گئیں اور ہیلو ہیلو کرتی رہ گئیں مگر آگے سے کسی نے جواب نہ دیا ۔۔۔۔۔۔ ان کا ارادہ تھا کہ جب صاحب آئیں تو وہ اُن کو اس بارے میں بتائیں شاید نور کا کُچھ پتا چل جائے۔۔۔۔


وہ بیس منٹ میں درید کے فلیٹ میں پہنچ گئی تھی ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا اسے سمجھ نہ آیا آگے کہاں جائے اُس نے فون کی لائٹ آن کی اور آگے بڑھی کہ اُسے کُچھ آوازیں سُنائی دیں وہ جلدی سے اُس کمرے کی طرف بڑھی جہاں سے آوازیں آرہیں تھیں۔۔۔۔ اندر داخل ہو کے اُس نے لائٹ جلائی تو دھک سے رہ گئی۔۔۔ کمرے کا سارا سامان ٹوٹا ہوا تھا بیڈ شیٹ نیچے گِری ہوئی تھی تکیے اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے پرفیومز ٹوٹی ہوئیں کارپٹ پہ پڑیں تھیں گلدان کے ساتھ ساتھ شیشا بھی ٹوٹا ہوا تھا کمرے کی کوئی چیز اپنی درست حالت میں نہ تھی۔۔۔۔ اُسے بیڈ کی دوسری طرف سے سسکیوں کی آواز سُنائی دی تو وہ اور آگے بڑھی۔۔۔۔ اسے لگا اُس کا دل بند ہو جائے گا۔۔۔۔ درید دونوں بازو گھٹنوں کے گِرد لپیٹے چہرہ جھکائے رو رہا تھا اور ساتھ میں کُچھ بڑبڑا رہا تھا جو ساوی کو سمجھ نہ آیا۔۔۔ وہ تڑپ کر آگے بڑھی۔۔۔ درید یی یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے اپنی ؟؟ کیا ہوا ہے؟؟ ککیوں رو رہے ہیں ؟؟؟ وہ اس کے گھٹنوں پہ رکھے بازو کو پکڑتی ہوئی بولی۔۔۔ تت تم آ گگ گئی مم مجھے پتہ تھا تت تم آو گی مم مجھ سے بہت پپ پیار کرتی ہو نہ اب مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا مم میں مر جاوں گا پلیز ۔۔۔۔ وہ روتا ہوا اس پہ گرفت کرتا اسے خود میں بھینچ گیا کہ ایک پل کو وہ کراہ کر رہ گئی۔۔۔۔۔ آپ نے شش شراب پی ہے ؟؟ ساوی کی حیرت میں ڈوبی آواز اُبھری اور وہ اس کاہاتھ جھٹکتی درید سے دور ہوئی ہہ ہاں پی ہے اور پیوں گا روز پیوں گا۔۔۔۔ تم تم مجھ سے زرا پیار نہیں کرتی مم میں ہی پاگل تھا جج جو تمہارے پپ پیچھے پیچھے آتا تھا۔۔ مم مگر اب تمہیں سس سزا ملے گی مم میں تمہیں سزا دوں گا پھر تت تم کبھی مجھ سے دور نہیں جاو گی۔۔۔ وہ اُس کے ہاتھ جھٹکنے پر اسے کمر سے جکڑتا ہوا شدت سے بولا۔۔۔۔۔ چچ چھوڑیں مجھے ۔۔۔ دور رہیں مجھ سے ۔۔۔ مم جھے گھر جانا نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔۔۔ وہ اس کے بڑھتے ہاتھوں کو روکتی ہوئی بولی جو اب اپنی حد پار کر رہے تھے۔۔۔ کک کیا کہا نن نہیں رہنا میرے ساتھ؟؟ پھر کس کے ساتھ رہنا ہے اس اشعر ککک کے سس ساتھ جس سے تمہارا ررر رشتہ طے ہو گیا ہے۔۔۔۔ بب بہت خوش ہو اُس کمینے سس سے مم منگنی ہونے پر؟ ایسا کیا ہے اُس میں جو مُجھ میں نہیں ہے ؟ اس سے زیادہ پیار دے سکتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لڑکھڑاتے لہجے میں بولا وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا اگر ہوش میں ہوتا تو کبھی ایسی باتیں اپنی چڑیا سے نہ کرتا پہلی دفعہ اُس نے حرام کو منہ لگایا تھا جس کا نشہ اُس کے سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ وہ صیح غلط کی تمیز بھول گیا تھا ۔۔۔۔ اُسے یاد تھا تو صرف اتنا کہ اس کی ساوی نے کسی اور کے ساتھ کے لیے ہامی بھری تھی بغیر اُس کا سوچے۔۔۔۔۔۔ ہاں کروں گی میں شادی اور اُسی سے کروں جس سے ماما پاپا کہیں گےاور اب آپ بھی مجھے روک نہیں سکتے۔۔۔۔ اس نے درید کی بات سن کے غصے سے کہا تھا یہ سوچے بغیر کہ سامنے اُس کا درید نہیں نشے میں ڈوبا ایک ایسا انسان تھا جسے اُس کی محبت نے ٹھکرا کر کسی اور کا ساتھ قبول کر لیا تھا۔۔ .
تمہیں میں اِس لائق ہی نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ درید کے ہاتھ اُس کے دوپٹے تک پہنچتے اُس نے ایک جھٹکے سے درید کو پیچھے کیا تھا اور اپنی پوری طاقت لگا کے اُس کے چہرے پہ تھپڑ مارا تھا۔۔۔۔ کہ ایک پل کو وہ خود بھی دنگ رہ گئی تھی وہ کبھی اپنے ہاتھ کو دیکھتی تو کبھی درید کے سرخ چہرے کو جو اُس کے اشتعال کو ظاہر کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ تت تم نے مجھے مارا اس اا اشعر کے لیے ۔۔۔ اب تم پر صص صرف میرے نام کی مم مہر لگے گی دیکھتا ہوں کک کیسے کسی اور کی ہوتی ہو تت تم ۔۔۔۔۔ ساوی کے تھپڑ نے اس کے اندر کے جنون کو باہر نکلنے کا راستہ دیا تھا جو شاید اُن دونوں کی زندگیاں اجاڑ دیتا۔۔۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں جنون، طیش اور نفرت دیکھتے وہ پیچھے ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ لگاتار اس کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ وہ پیچھے کھسک رہی تھی۔۔۔۔ درید نے ایک جھٹکے سے آگے بڑھ کر اس کی کمر سے دبوچ کے کندھے پہ اُٹھایا تھااور بیڈ پہ لا کے پٹخا تھا۔۔۔۔ پلیز میرے پاس مت آئیں …مجھ سے دور رہیں آپ کو خدا کا واسطہ ہے…..کیا بگاڑا ہے میں نے آپ کا ….. کیابگاڑا ہے تم نے میرا تم نہیں جانتی کیا بگاڑا ہے تم نے میرا …. میری نیند, چین سکون چھین کے کہتی ہو کہ کیا بگاڑا ہے ؟؟؟ کسی اور کا ساتھ قبول کیا تھا نا تم نے اب تمہیں اپنا بنا کے چھوڑوں گا کسی اور کے لائق ہی نہیں رہو گی تو تمہیں میرا ہی ہونا پڑے گا….وہ اُس پہ جھکتا دھاڑرہا تھا۔۔۔۔۔ مجھے جانے دیں کزن ہوں میں آپ کی اسی رشتے کا لحاظ کر لیں آپ پر یقین کرنے کی اتنی بڑی سزا مت دیں مجھے..وہ روتے ہوۓ بولی تھی. اسی رشتے کا تو لحاظ کیا ہے اتنے دن مگر بات تو وہی رکی ہوئی ہے مجھے چھوڑ کے اُس اشعر کی ہونے جا رہی تھیں تم۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے کان کے قریب غرایا تھا. مم میں آپ کو کبھی مم معاف نہیں کروں گگ گی آپ روئیں گے گڑگڑائیں گے تت تب بھی نہیں….وہ حواس کھو رہی تھی. ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی… وہ مدہوشی میں مسکرایا تھا. اور پھر اس کمزور سی لڑکی کی ہر مزاحمت بیکار گئ تھی پوری رات وہ روتی گڑگڑاتی رہی مگر وہ اپنے کان بند کر چکا تھا اور ایک اور بنتِ حوّا اُس آدم کی حیوانیت کا شکار بن چکی تھی جو اُس سے محبت اور عشق کا دعویدار تھا ۔۔۔۔۔۔


   0
0 Comments